آباد تھے ہم بھی کبھی آلام سے پہلے
یعنی کہ محبت تیرے انجام سے پہلے
اب ہجر میں لپٹی ہوئی اک شامِ الم ہے
کیا شام ہوا کرتی تھی اس شام سے پہلے
ٹہرو نہ ابھی مارنا پتھر مجھے لوگو
سولی پہ چڑھا لو مجھے آرام سے پہلے
دل میرا جلانے کے لیئے اہلِ زمانہ
لیتے ہیں تیرا نام میرے نام سے پہلے
ساقی مجھے عادت نہیں اس جام سبو کی
آنکھوں سے پلا دے نا مجھے جام سے ہہلے
بدنام ہوئے جاہتے اس عشق کے صدقے
پھر تھے وگرنہ یونہی گمنام سے پہلے
حیدر میری غزلوں کے سبب ہونا ہے برپا
ہنگام سا اک حشر کے ہنگام سے پہلے