آتشِ عشق کی کوئی حد نہ رہی
دل جلا اور بھی، مگر شک نہ رہی
عمر بھر درد ہی کا سودا تھا
زندگی، زندگی تو بس شب نہ رہی
تیر اس کا جگر سے نکلا بھی نہیں
اور زخموں میں کوئی رَفت نہ رہی
غم کو ہم نے گلے سے لگایا
پھر بھی دنیا کو وہ ادا بد نہ رہی
مر گئے پر دفن ہونا نصیب کیا
دھوپ ایسی تھی، خاک بھی سرد نہ رہی
رات کے سناٹے میں بھی صدا تھی خاموشی کی
دھوئیں کے سائے میں چھپی تھی آہیں لب نہ رہی
خواب وہ تھے جو کبھی تعبیر میں نہ آئے
ہر خواب کے پیچھے کوئی وحشت کب نہ رہی
پھولوں نے بھی چُپ کر کے غم کو اپنایا
خوشبو میں کہیں وہ خوشی کی پل نہ رہی
زمانہ بھی ساگر تھا، ہم ساحل بن گئے
لہر کے مارے دل کی کشتی ڈوب نہ رہی
یہ درد ہے، مگر یہ درد بھی رواں دواں ہے
جیسے خون میں بہتا ہو کوئی درد نہ رہی