آتشِ ہجر میں خود کو ہی جلا دیتی ہے
در و دیوار سے لپٹی جو صدا دیتی ہے
میں نے ہر روز نیا ایک تماشا کر کے
اپنی دنیا کی تمنا کو جگا دیتی ہے
ساری دنیا کو بتایا ہے کہ انسان ہوں میں
ایک میلا سا زمانے میں سجا دیتی ہے
اپنے حصے کی بہاروں کو لٹا کر تجھ پر
تیرے دامن کو شراروں سے بچا دیتی ہے
ایک دن دیکھنا لفظوں میں جھلک آئے گا
تم نے جس خون کو گردش میں بہادیتی ہے
صاف لفظوں میں کرو عرضِ محبت وشمہ
بات کو یونہی مری جان گھما دیتی ہے