آج دیدار اپنا کرا دیجئے
رخ سے زلفِ چلیپا ہٹا دیجیے
اب دوا کی ضرورت نہیں ہے ہمیں
پیار سے آپ مرہم لگا دیجئے
عہد اہنا وہی اب نبھا دیجئے
آپ کے بن نہیں کوئی میرا ہہاں
عہد اپنا وہی اب نبھا دیجئے
بے وفائی نہیں اچھی ہوتی کبھی
اب وفاؤں کے بدلے وفا دیجیے
دل بھرا ہے جنونِ محبت سے اب
ساتھ اب زندگی بھر سدا دیجئے
پھر ہماری ملاقات ممکن نہیں
شاعری اپنی ہم کو سنا دیجئے
ایک دن موت کا تو مقرر ہی ہے
آپ شہزاد کے حق دعا دیجئے