آج اک بغاوت کا مزا چکھتا ہوں میں
ہاں ایسا ہی کچھ ظرف رکھتا ہوں میں
تیری شکائت بجا میں نے کچھ نہ کیا
چل دیکھ پھر آج کیا کرتا ہوں میں
تو کبھی خرید نہ پایا تھا مجھے لیکن
تیری خاکِ پا کے عوض آج بکتا ہوں میں
خزاں رسیدہ پتوں میں خطوں کا دھواں ہے
تیری یادوں کے سنگ آج بکھرتا ہوں میں
اگر جرات ہے تو بھی لکھ دے ایسا ہی
نام کے سنگ نام تیرا لکھتا ہوں میں