پیاری ہے اسکے چہرہ کی مسکان آج بھی
اٹکی ہوئی ہے اس پہ میری جان آج بھی
جسکے لیئے تعلق تھا اس شہر سے میرا
رکھی ہوئی ہے ان سے جان پہچان آج بھی
اس نے تو کہیں اور ہی بسا لی اپنی دنیا
گھر میرا آکے دیکھ ہے ویران آج بھی
اتنا وہ ٹوٹ کے چاہتا تھا مجھے کے میں
ہوں چھوڑ کے جانے پہ حیران آج بھی
جاتے ہوئے جی بھر کے اسے دیکھ نہ سکا
محسوس ہوتا ہے یہ نقصان آج بھی
یاسر اسے گئے مدت ہے ہوئی پھر بھی
رکھا ہے اسکے آنے کا امکان آج بھی