آج سے اپنے آپ کو بدل کے دیکھتے ہیں
اب صراطِ مُستقیم پہ چل کے دیکھتے ہیں
جس سے نظر بیدار اور دل ہو جائے روشن
کچھ ایسے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
اِس بے سکوں نگر سے اُکتا چُکا ہے جی
اب دشت و صحرا میں نکل کے دیکھتے ہیں
کب سے بھٹک رہے ہیں، کھا رہے ہیں ٹھوکریں
اے دل اب ذرا سا سنبھل کے دیکھتے ہیں
جو ایک مُدت سے امر دل میں ہے پنہاں
آج اُس کی جُستجو میں نکل کے دیکھتے ہیں