خار زاروں میں مسافر کی طرح زیست مری
چل رہی ہے کسی انجان سی منزل کی طرف
جس میں ناکامیء الفت کے سو ا کچھ نہ ملا
لوٹ جاتی ہے نظر پھر اسی محفل کی طرف
سوچتا ہوں کہ محبت کے یہ ایاغ مرے
تیری آنکھوں کی شرابوں سے ہیں کتنے خالی
تیری آغوش سے مہکا نہ شبستاں میرا
آج پھر تیرے بنا رات ہے ڈھلنے والی
ایک موہوم سی امید رفاقت بھی نہیں
اب نہ لوٹیں گے وہ گزرے ہوئے ایام کبھی
جس نے بخشی تھی محبت کی مجھے پہلی کرن
اب نہ آئے گی وہ بیتی ہوئی اک شام کبھی
بارہا چاہا بھلا دوں تجھے فرقت میں مگر
یاد ہر لمحہ مجھے تیرا خیال آتا ہے
جیسے اگتے ہیں بیابانوں میں خود رو پودے
شب کی تنہائی میں یوں تیرا خیال آتا ہے
اب ستاروں کی بھی بارات ہے چلنے والی
آج پھر تیرے بنا رات ہے ڈھلنے والی