آج چھیڑے نہ کوئی شہنائی
اب مری جان پہ ہے بن آئی
وہ سمندر میں بھی کہاں ہو گی
میری آنکھوں میں ہے جو گہرائی
میرے چہرے کی فکر کہتی ہے
آج ہو گی جہاں میں رسوائی
یہ مری زندگی کے ساتھی ہیں
میرے افکار ، میری تنہائی
زندگی کے نگار خانے میں
تیری میری ہے کتنی رسوائی
غم کے بادل ہیں چار سو پھیلے
غم کی برکھا ہے لوٹ کر آئی
پیار کو بھی وہ کھیل سمجھے ہے
کتنا پاگل ہے میرا سودائی
اپنا مطلب نکالتے ہیں سبھی
کون بہنا ہے ، کون ہے بھائی
تیری فرقت کی آگ میں جل کر
وشمہ کھو دی ہے میں نے بینائی