'چند لمحے جو لوٹ کر آئے'
آج یادوں کے نین بھر آئے
پھول کھلتے نہیں تھے شعروں کے
سارا گلشن اداس کر آئے
چشمِ مہتاب کھول رکھی ہے
تا کہ تیری بھی کچھ خبر آئے
دل دھڑکتا تھا چلنے میں لیکن
پھر بھی کر کے ہیں ہم سفر آئے
پھر تو رونے کو دل مچلتا ہے
درد بھی جب جھکا کے سر آئے
عشق تنہا تھا ، میں بھی تنہا تھی
پھر بھی الزام اپنے سر آئے
زندگی کی اداس گلیوں میں
راستے بھی تو کس قدر آئے
دل گرفتہ تھا گاؤں میں لیکن
زخم کھانے کو تیرے در آئے
جیتی بازی کو ہار کر وشمہ
اس کی دنیا میں نام کر آئے