خدایا عید کے دن تو بخش دینا بنتا تھا تیر
آج یہ دل کیوں پھٹ جانے پہ تل گیا ہے
نہ کچھ قرباں ہو نہ آنکھ روئی دل بھی ساکن ہے
مگر احساس ہر لمحے میں جل جانے پہ تل گیا ہے
عبادت تھی فقط عادت نہ دل سجدے میں جھکتا تھ
یہی غفلت مجھے اب تو بدل جانے پہ تل گیا ہے
نمازیں تھیں فقط رسمیں زباں پر ذکر بے معنی
مگر اندر کا خالی پن مچل جانے پہ تل گیا ہے
کفن باندھے ہوئے پھرتے ہیں خواہش کے جنازے اب
کوئی وعدہ کوئی سچ بھی تو پل جانے پہ تل گیا ہے
خُدا کی یاد میں دل نرم ہو تو عید بنتی ہے
یہ کیا جشنِ ہوس ہے جو بہل جانے پہ تل گیا ہے
مظہرؔ یہ دنِ قرباں ہے بدن کا خوں نہیں کافی
یہ دل سچّ خُدا کے در پہ جل جانے پہ تل گیا ہے