ہمارے پیار کا ایسا مظبوط بندھن ہوتا
چھوٹے سے گھر میں چھوٹا سا آنگن ہوتا
میں تیرے ماتھے پہ پیار سے بوسا دیتا
تیری پیشانی پہ جھومر کا وہ درشن ہوتا
ہم ایک لمبے سفر کے لیے ہمراہی بنے تھے
کاش رنگپور ہم دونوں کا چمن ہوتا
تیری تجویز تھی کہ ہم بھاگ کر شادی کرلیں
میں اگر مان جاتا تو تیرا ساجن ہوتا
یہ جانتا کہ آرزو ہے تجھے دولت و ثروت کی
رزق حرام سے میرا بھی گھر گلشن ہوتا
مرنے والے کی آخری خواہش یہ ہے
کاش میں تیرے ہی ہاتھوں دفن ہوتا