آدھی رات گزر چکی ہے
مگر میں جاگ رہا ہوں
تری یادوں کے ساتھ
ترے خیالوں کے ساتھ
ملاقات جاری ہے
ابھی بات جاری ہے
کچھ شکوے ، کچھ شکایتیں
کچھ محبتیں ، کچھ نفرتیں
امتیاز کر رہا ہوں
لکیریں پڑھ رہا ہوں
ستارے چمک رہے ہیں
ستارے مسکرا رہے ہیں
مگر چاند اُداس ہے
مجھے اُداس دیکھ کر
دیکھو صحرا اُداس ہے
میری پیاس دیکھ کر
سب غمزدہ جو ہیں
سب رو رہے ہیں
مگر میرے غم پہ
مگر میرے حال پہ
اپنے غم بھلا کے
سارے ہی دیکھ لو
آنسو بہا رہے ہیں
نہال کے ملال پہ
آدھی رات گزر چکی ہے
مگر میں جاگ رہا ہوں