آزاد نظم
Poet: Saqib Nisar By: Saqib Nisar , Muzaffarabadakسنو
مجھ کو اجازت دو
کہ
تم سے کہوں
تم سے سیکھا ھے محبت کیسے کرتے ھیں
سنو
تمھاری جھیل سی انکھیں ان میں تھوڑا سا کاجل
تمھارے ناک کی نتھلی تمھارے کان کی بالی
تمھارا بات کرنا یا تمھارا چپ سا ھو جانا
مجھے سب اچھا لگتا ھے
سنو
مجھ کو اجازت دو
کہ کہوں تم سے
تم کتنی اچھی ھو
تمھارے لفظ اور تم کتنی سچی ھو
تمھارا حوصلہ دینا اور مجھ کو سمجھانا
محبت اب بھی جائز ھے
جو ھم کو چھوڑ جاتے ہیں تعلق توڑ جاتے ہیں
ان پہ ماتم نہیں کرتے
انھیں بھول جائو تم
نئی دنیا بسائو تم
سنو
میں ایسا کرنے سے اب بھی ڈرتا ھوں
مجھے لگتا ھے کوئی مجھے پھر توڑ جائے گا
یونہی انجان رستوں میں اکیلا چھوڑ جائے گا
اگر میں اب بکھرا تو نا کبھی سمٹ پائو گا
ابھی تم ساتھ ھو نا تب کون ھوگا؟؟
پھر کسی کی آنکھ کا کاجل کسی کی ناک کی نتھلی
کسی کے کان کی بالی کسی کے ھاتھ کی چوڑی
مجھ کو بھا گئی یا مجھ کو رولا گئی تو÷
کون مجھ کو سمبھالے گا
چلو چھوڑو
سنو
میں رب سے مانگتا ہوں
کہ
خدایا
اس پیاری چھوٹی لڑکی کو ہمیشہ خوش رکھنا
یہ جو بھی مانگے تجھ سے عطا کرنا
خداوند
اس کی آنکھ کا کاجل کبھی نا بھیگنے پائے
اس کی ناک کی نتھلی اس کے کان کی بالی
اس کے ہاتھ کی چوڑی
ہمیشہ
یونہی چمکتی اور کھنکھتی رہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






