آؤ دھیمی سی آنچ پر جل کر دیکھتے ہیں
ہو کر فنا جی کر دیکھتے ہیں
آؤ اس پر مر کر دیکھتے ہیں
بڑی بڑی ہیں آنکھیں
ان میں ڈوب کےدیکھتے ہیں
کم سن سی عمر اس پر بھرم
خود کو جھکا کر دیکھتے ہیں
لبوں پر ان کے غضب کی مسکان
یہ ستمِ جان سہہ کر دیکھتے ہیں
دسمبر بھی ہوا جلا جلا سا
آتشِ حسن کو اپنا کر دیکھتے ہیں
کرتے ہیں حسنِ خیراں کو ذرابرہم
ان کے گال گلاب کرکے دیکھتے ہیں
سراپاِ قیامت ہوشربا
آج ہمتِ مرداں کرکے دیکھتے ہیں