اپنی پلکوں سے بلائیں تو غضب ہوتا ہے
آنکھ سے آنکھ ملائیں تو غضب ہوتا ہے
روٹھ جاتی ہیں دعائیں تو غضب ہوتا ہے
درد پھر ہاتھ بڑھائیں تو غضب ہوتا ہے
زخم دل اور سنورتے ہیں ترے پیار کے بعد
غم کی چلتی ہیں ہوائیں تو غضب ہوتا ہے
تتلیاں بھرنے کو گلوں میں وفا کی خوشبو
رنگ ہونٹوں سے چرائیں تو غضب ہوتا ہے
لوگ مسرور ہیں بستی میں اجالا کر کے
اب انہیں چھوڑ کے جائیں تو غضب ہوتا ہے
تیری محفل میں محبت کے بھکاری بن کر
ہم بھی جلوہ جو دکھائیں تو غضب ہوتا ہے
اپنی تنہائی کو سینے سے لگا کر وشمہ
دل کی ہر بات بتائیں تو غضب ہوتا ہے