آنکھوں میں تیرا چہرہ بسائے بیٹھے ہیں
تجھ سے ملنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں
تم کیا جانو مجھے تم سے کتنی محبت ہے
ہم اس دل میں تیرا پیار چھپائے بیٹھے ہیں
شاید جیتے جی تیرا دیدار نصیب ہو جائے
کب سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے بیٹھے ہیں
کسی غیر سے نہیں کوئی شکوہ گلہ
ہم تو اپنے پیاروں کے ستائے بیٹھے ہیں
کیا حال بنا رکھا ہے پوچھتے ہیں دوست اصغر
تیری جدائی کے زخم زمانے سے چھپائے بیٹھے ہیں