آنکھوں میں میں غم کو چھپائے پھرتا ہوں
زیست کی گٹھری سر پہ اٹھائے پھرتا ہوں
اس کے لب و رخسار کو روشن رکھنا ہے
جس کی خاطر دل کو جلائے پھرتا ہوں
اس کو دوں الزام جفا کا یا بے درد زمانے کو
ان سوچوں میں ذہن الجھائے پھرتا ہوں
بارش ہو کہ آندھی سب کچھ سہتا ہوں
فرسودہ رسموں کاسر پر بوجھ اٹھائے پھرتا ہوں
چاندنی راتیں دادؔ پہاڑوں پر گھوموں
چاند چکور کا ربط بڑھا ئے پھرتا ہوں