آنکھوں میں کچھ عذاب تمہارے ٹھہرتے ہیں
اور فرار محبتوں کے شمارے ٹھہرتے ہیں
دیکھو ہواؤں کے رخ نے کون سا چمن اجاڑا
کہ آج ان کی ردا میں ستارے ٹھہرتے ہیں
تنہائی میں سمٹ کر سبھی آہٹیں سُلا کر
راتوں میں یوں چراغ ہمارے ٹھہرتے ہیں
ہر آنکھ کی ترغیب ہے اپنی اپنی مگر
آس پاس تو یوں کئی نظارے ٹھہرتے ہیں
بدمست ان موجوں سے بھی کیا ڈرنا
مگر ڈرکے بھی کچھ لوگ کنارے ٹھہرتے ہیں
کئی دنوں سے دل کا مکان خالی پڑا ہے
تو چلو سنتوشؔ آج گھر ہمارے ٹھہرتے ہیں