کتنی پرنور ہیں آنکھیں اسکی اندھیری رات میں تارا سی آنکھیں اسکی
جان لیتا ہے بن کہے میرے جزبات میرے دل تک جھانکتی آنکھیں اسکی
یوں تو دلکش بھی ہے شوخ بھی ہے اسکے ہونٹوں کی ہسی لیکن
مجھے مجھ سے چرا لیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مسکراتی آنکھیں اسکی
کوئی بدنصیب لمحہ ہمارا رقیب نہ ٹھرے
اس خوف سے بھیگ جاتی ہیں آنکھیں اسکی
ہزاروں کے مجمع میں یکتا سا دیکھتا ہے مجھے
گویا کرتی ہیں میرا طواف زائر آنکھیں اسکی
یوں تو یکتا ہے مہ وجود اسکا پر
یکتوں میں یکتا ہیں آنکھیں اسکی
میری پلکوں پہ غم کا آنسو نہ ٹھرے
میری پلکوں پہ ٹھر گئیں ہیں آنکھیں اسکی
نظر لگ نہ جائے میرے سرخ آنچل کو
اکثر نظر اترتی ہیں فکرمند آنکھیں اسکی
کرو گی کیاجو ہوگیا کسی مہ خوباں پہ فدا
ٹوٹ کر بکھر جاتی گر نہ سمیٹ لیتی مہرباں آنکھیں اسکی
اسکی باتوں سے ہوا گھائل دل مگر
مرہم لگا گئیں مسیحا آنکھیں اسکی
تنک جاوں کبھی اسکے خشک رویے سے
تو منالیتی ہیں صلح جو آنکھیں اسکی
قربتوں کہ سلسلے اتنے ضروری تو نہیں
دور سے ہی مجھے چھولیتی ہیں آنکھیں اسکی
چرا نہ لے اس سے کوئی دھوکے سے
مجھے پلکوں میں چھپائے پھرتی