اتفاقات کچھ عجیب ہوئے
آپ اتنا مرے قریب ہوئے
یہ خبر نہ تھی آپ میرے لیے
اپنی پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں
دھڑکنوں میں ہے نام بس میرا
مجھ کو دل میں بسائے بیٹھے ہیں
کتنے اچھے مرے نصیب ہوئے
آپ اتنا مرے قریب ہوئے
ڈھونڈتا تھا وفا زمانے میں
کوئی بھی نہ وفا شعار ملا
پیار چاہا تو بس ملی نفرت
پھول مانگا تو مجھ کو خار ملا
لوگ ہر دور میں رقیب ہوئے
آپ اتنا مرے قریب ہوئے
زندگی نے سکون پا ہی لیا
آپ آئے بہار آئی ہے
پیار پا کر یہ لگ رہا ہے مجھے
جیسے قسمت قرار لائی ہے
چھو کے دل کو مرے حبیب ہوئے
آپ اتنا مرے قریب ہوئے
دل میں شہنائیاں سی بجنے لگیں
نور برسا رہی ہے رات حسیں
آج تنہائی بھی ہے موقع بھی
آج مدہوش ہو نہ جاؤں کہیں
ایک دوجے کے ہم نصیب ہوئے
آپ اتنا مرے قریب ہوئے
اتفاقات کچھ عجیب ہوئے
آپ اتنا مرے قریب ہوئے