آپ نے اب تک جو دیکھے ، آسودہ چہرے دیکھے ہیں
بھوک کا مطلب جانے وہ ، جس شخص نے فاقے دیکھے ہیں
وقت کے ہاتھوں مات ملی اس دنیا میں شہ زوروں کو
ہم نے اکثر خاک میں ملتے لاکھوں رُتبے دیکھے ہیں
ساری عمر کہاں رہتا ہے ساتھ میسر اپنوں کا ؟
ہم نے پل میں روپ بدلتے لاکھوں رشتے دیکھے ہیں
کیسے ہوگا ، کیوں کر ہو گا خوشیوں کا ادراک اسے
چھوٹی سی ہی عمر میں جس نے لاکھوں صدمے دیکھے ہیں
سارے منظر دھندلے دھندلے ،بے چہرہ تھے لوگ سبھی
جن پر کچھ بھی رقم نہیں تھا ، وہ بھی کتبے دیکھے ہیں
وقت نہیں رہتا اِک جیسا ، عذراؔ ایک حقیقت ہے
دکھ سکھ کے سب موسم ہم نے آتے جاتے دیکھے ہیں