پاؤ سے ہی ہے عیاں حسن جناب کا
رُخ تو ہو گا کوئی شیریں جام شراب کا ؟
لگتا ہے کسی وادی ِ زنجیل کے باسی ہیں
چرچا ایسے تو نہیں عام اُنکے شباب کا
زلف آنکھ چہرے ہنسی کی کیا بات کرتا
آہٹ نے ہی دیا ہے جھٹکا عذاب کا
وہ سامنے نہیں میں سوچ تو سکتا ہوں
وہی ہیں حرفِ آخر حسن کے نصاب کا
آواز سن کر ہی ساغر تو آخر پگل گیا
دیکھ لیتا تو بول جاتا عشر کے حساب کا