آیتِ جاں سے درِ دل کو اُجالے رکھوں
مثلِ تعویذ گلے میں اُسے ڈالے رکھوں
اُسکے آنچل کی مہک چھونے لگی میرا بدن
اپنی بانہوں میں ہواؤں کو سنبھالے رکھوں
آ! مرے چاند نہ کھا جائے ستاروں کی نظر
میں ترے گِرد مناجات کے ہالے رکھوں
گو ! میں خود زخم سراپا ہوں جو تُو آئے تو
تیرے زخموں پہ لبِ وصل کے گالے رکھوں
جب تلک سانس قلم لیتا رہے لکھتا رہوں
یونہی غزلوں میں ترے حسن کو ڈھالے رکھوں
پہلے دن تُونے جب اقرار کیا تھا جاناں
اپنی راتوں میں اُسی دن کے حوالے رکھوں
رنگ و خوشبو سے سجانا ہے ہر اک رستے کو
وَرد رکھوں تری راہوں میں کہ لالے رکھوں