اب تو ہر بات میں ان کا خیال رکھتا ہوں
اپنی سوچ اپنا لہجہ ان کی مثال رکھتا ہوں
یوں تو عادت سی ہے مجھے ہر بات بھول جانے کی
مگر ان کی باری یاداشت اپنی لازوال رکھتا ہوں
ان کو پانے کی تمنا سی آبسی ہے دل میں شاید
اسی لئے خود کو ان کی یادوں میں ڈال رکھتا ہوں
اے ٹوٹ کے مجھ کو چاہنے والے اتنا یقیں رکھنا
میں بھی ایسا کرنے کی ہمت و مجال رکھتا ہوں
اور جب سے وہ میرا عنوان ہوے ہیں دانی
میں شاعری میں بھی اب تو کمال رکھتا ہوں