تھوڑا خلوص ،تھوڑا سا احسان چاہیے
مجھ کو تو ایک ساتھی مہربان چاہیے
جذبوں کا اک الاؤ دہکتا رہے سدا
دل کی خوشی کے واسطے سامان چاہیے
دشوار راستے بھی سہل ہو ہی جائیں گے
چلتے چلو کہ چلنے کا ارمان چاہیے
مشکل تھی مشکلوں سے گزاری ہے آج تک
اب زیست مجھ کو تھوڑی سی آسان چاہیے
دکھ سکھ میں میرا ساتھ نبھاؤ گے عمر بھر
اتنا تو مجھ کو پیار میں پیمان چاہیے
ویراں ہے میرا گھر مرے دل کی طرح بہت
اس میں ذرا سی دیر کو مہمان چاہیے
ہر غم کو جو بھلا دے فقط ایک ہی پل میں
ایسی تمھارے ہونٹوں پہ مسکان چاہیے