اب فریب اُلفت کا ہم کبھی نہ کھائیں گے
دِل اگر نہ مانے گا، دِل سے رُوٹھ جائیں گے
تنکا تنکا کر ڈالا آشیاں کو آندھی نے
ہم نے تو یہ سوچا تھا آشیاں سجائیں گے
ہم شکست خوردہ ہیں سب لکھا ہے چہرے پر
دِل کا حال دنیا سے کِس طرح چھپائیں گے
وقت گر کبھی ہم کو دور لے گیا تم سے
شہر میں تمہارے پھر لوٹ کر نہ آئیں گے
چبھ رہی ہیں آ نکھوں میں کرچیاں سی خوابوں کی
اب کبھی نہ آنکھوں میں خواب ہم سجائیں گے
وقت گر مقدر سے مل گیا کبھی ہم کو
داغِ دِل زمانے کو کھول کر دِکھائیں گے
زندگی مشقت ہے ، سچ سہی مگر عذرا
دیکھنا ہتھیلی کے زخم رنگ لائیں گے