اب نہیں لے گا مرے ساتھ ترا نام کویٔ
اب مری ذات پہ آۓ گا نہ اِلزام کویٔ
لوگ مرضی سے بھی بدنام ہوُا کرتے ہیں
نام ہو تا ہے جو ہو جاتا ہے بدنام کویٔ
ایک لمحہ بھی ترے پاس نہیں میرے لیۓ
کاش ہو سکتی مرے نام تری شام کویٔ
تیرے ملبوس کی خوشبو ہے مرے چار طرف
اِن ہواؤں میں چھپا ہے ترا پیغام کویٔ
نا اہل ہو کے بھی پا لیتا ہے کوِیٔ شہرت
اہل ہوتے ہوۓ رہ جاتا ہے گمنام کوِیٔ
وہ کہانی کہ شروع تم نے کیا تھا جِس کو
آج دے ڈالو اُسے اچھا سا انجام کویٔ