آ بھی جائے تو بات نہیں کرتا
اب وہ مجھ سے ملاقات نہیں کرتا
جانے کیونکر بچھڑ گئے ہم
اب وہ میرا احساس نہیں کرتا
میری آنکھوں کے پیاسے صحرا کو
اب وہ دیدار دے کر سیراب نہیں کرتا
ملنے کو بےتاب رہتے تھے دن رات جو
اب وہ روک کر میرا انتظار نہیں کرتا
ہزاروں شکوے کرتا جو نا ملتے کبھی
اب وہ شخص مجھ سے تکرار نہیں کرتا