اب پہلی سے وہ ملاقاتیں نا رہی
سنسان مدہوش چاند راتیں نا رہی
تحفے تو تھے بہت میرے پاس مگر
تیری دی ہوئی وہ سوغاتیں نا رہی
ُاس کی یاد میں آنسو اب بھی بہتے ہیں
بس ساون کی پہلی برساتیں نا رہی
میرے جانے سے تجھے کیا فرق پڑھے گا
تیرے دل میں پہلی سی سعادتیں نا رہی
بھول گئی ہوں خود کو شاید میں
لفظ چنتی ہوں پر بنانے کو باتیں نا رہی
کتنا شوق تھا ُاس کی سعادت کا مجھے
پر آنے والے کو مجھ سے چاہتیں نا رہی
مٹ ہی گیا نا یہ آزمائش کا سفر
نفرت کرنے والے کے دل میں کڑواہتیں نا رہی
میرے قلم نے کیسا درد لکھ دیا ہے
کہ پڑھنے والوں میں ہمتیں نا رہی
بہت کچھ کھویا ہے اپنی نادانی سے لکی
وقت کے ساتھ ساتھ وہ ہماقتیں نا رہی