اب کہہ بھی دو کہنا ہے جو
کیوں ہم سے روٹھ گئے ہو
کیا بھول ہوئی انجانے میں
مان بھی جاؤ رُسوا نہ کرو
نہ ہو جائیں ہم خاک یہاں
ضد چھوڑو، جانے بھی دو
بڑی دیر سے ہیں چشمِ براہ
آؤ تو سہی چاہے گِلے کرو
تیور بدلے بدلے سے ہیں
جو دل میں ہے، بول بھی دو
ہم وہی پرانے ساتھی ہیں
صرف ِ نظر کیوں کرتےہو
تم سے جو اُمید نہیں ہے
نہ تم بھی وہی کر گُزرو
مل کے دوری مٹا دیتے ہیں
نہ ہم تڑپیں، نہ تم تڑپو
اب دور جانے کا سوچتے ہو
ایسا نہ ہو پھر رہ نا سکو
نہیں دیتا جینے ڈر یہ ہمیں
ایسا نہ ہو کہیں ویسا نہ ہو
سمجھوتہ ہی کر لیتے ہیں
ہم سوچیں، کچھ تم سوچو
یہ بے رُخی نہ جاں لے لے
یوں اپنوں کا نہ دل توڑو
یہی آس لگائے بیٹھے ہیں
کبھی تو آؤ یا خط لکھو
اپنی نرم ہتھیلی پر تم بھی
کبھی نام ِرضا لکھ کر چومو