رکھتا ہوں مرہم زخموں پہ پھر ابھر آتے ہیں
دیکھتے جائیے صنم کو وہ کدھر جاتے ہیں
ہیں بڑی کھٹن منزلیں عشق کی یارو
کتنے ہی ان منزلوں میں بھنور آتے ہیں
جو ہوئی تھی کھبی ہم میں پہلے ملاقات
سب یاد مجھے آج وہ منظر آتے ہیں
نہ بھر سکا میں تیرے دیے ہوئے زخم
چلائے٧ تیر تیرے دل تک اتر آتے ہیں
کیسے لپٹے ہوئے ہیں شمع سے پروانے
جلتے ہیں یہ شاکر پھر در بدر آتے ہیں