ابھی تو چاند نکلا ہے، ابھی تو رات باقی ہے
جو دل کو دل سے کہنی ہے، ابھی وہ بات باقی ہے
تمہارے وصل میں کب سے، زمیں پیاسی تھی اس دل کی
ابھی تو ابر چھائے ہیں، ابھی برسات باقی ہے
وہ بچپن کی حسیں باتیں، جوانی کی خرافاتیں
کہاں وہ اب حسیں لمحے، کہاں وہ بات باقی ہے
گزر جائے گی یہ غم کی، جو کالی رات چھائی ہے
سحر بھی ہوگی خوشیوں کی، جو ترا ساتھ باقی ہے
مرے دل کی تمنائیں، جو تھیں ساری ہوئیں پوری
ادھوری کو ئی خواہش ہے، نہ کوئی بات باقی ہے
فسانہ بیتی باتوں کا ، نہ چھیڑو تم ابھی تنظیم
کہ دیکھو حسن جاناں تم، ابھی تو رات باقی ہے