کسے بتاؤں کہ غم ہے کیا اتارے کیا
ابھی زمانے کا معیار ہے تمہارے کیا
قدم قدم پہ میں سنبھلی ہوں ٹھوکریں کھا کر
یہ ٹھوکروں نے بتایا ہمیں ہمارے کیا
زمیں پہ لالہ و گل آسماں پہ ماہ و نجوم
نگاہ حسن طلب کے جو بھی اشارے کیا
کمند ڈال رہا ہے جو چاند تاروں پر
خدا ہی جانے کہ تقدیر میں تمہارے کیا
نفس کی آمد و شد پر بھی اختیار نہیں
نکل گئے ہیں وہ میداں ہمارےسارے کیا
وفا پرستوں سے کیوں ضد ہے اس پہ سب چپ ہیں
سوال یہ ہے کہ اس کا جو بھی پکارے کیا
وشمہ جی تیرگیٔ شب کا احترام کرو
یہ ہو گیا ہے خدا جانے دل کنارے کیا