ابھی کوئی خواب رہنے دو!!
Poet: سیدہ سعدیہ عنبر جیلانی By: سیدہ سعدیہ عنبر جیلانی, فیصل آباد، پنجاب، پاکستانابھی بے خواب ہیں آنکھیں ابھی کوئی خواب رہنے دو
ادھورے لفظ ہیں جس کے ابھی وہ باب رہنے دو
اس راہ پہ تہمت کہیں نہ تم پہ آ جاۓ
میرے لٹنے کو چھوڑو تم سبھی اسباب رہنے دو
حسن و نازاکت کا تعلق ہوتا ہے ایسا ہی
نہ وجہ کوئی سوچو تم چھوڑو جناب رہنے دو
میں ہم نشیں ہوں درد کی میں باسی گہری اداسی کی
میرے ساتھ نہ چل سکو گے تم یہیں اضطراب رہنے دو
یہاں تعلق مفادوں کے یہاں رشتے معیاروں
کہاں تک ساتھ دو گے تم میرے احباب رہنے دو
محبت کا وفاؤں کا بھرم کچھ تو رہے باقی
ذرا سی کسک رہنے دو کوئی عذاب رہنے دو
کم سن ہو جرت میں تو رسمن درد نہ چھیڑو
تلافی جہاں ناممکن ہو وہ احتساب رہنے دو
اس راہ پہ بکھرے ہیں اسی نام نے لوٹ
دریچے سارے محبت کے بند سبھی باب رہنے دو
یہ کیا کہ جب چاہو ہاتھ تھام لو میر
چاہو جب مجھے تم بے سبب بیتاب رہنے دو
وجہ اشکوں کی دیکھو نام اسکا بن گیا عنبر
خاموشی سے درد سہہ جاؤ سبھی انتساب رہنے دو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






