اتری نہیں جو روشنی دل کے مکان میں
کہنا نہیں ہے کچھ مجھے سورج کی شان میں
زخموں کے ساتھ دفن ہے میرا وجود بھی
زندہ ہوں دیکھنے کو مگر کب ہوں جان میں
یہ پنچھی تیری سوچ کے اڑتے بھی اب نہیں
یادوں کے کتنے تیر ہیں لیکن کمان میں
وہ چاہتا ہے شاعری میں اس کا ذکر ہو
رہتا نہیں ہے دل کے مگر خاندان میں
ان خواہشوں پہ اب مرا اتنا بھی حق نہیں
کیا کیا چھپا کے رکھا ہے جذبوں کی کان میں
اس کی بھی کٹ ہی جائے گی صحرا میں زندگی
جو رکھ گیا تھا پیار کا دریا گمان میں
پھر بڑھ رہا ہے درد میں بکھرا ہوا سکوت
خاموشیوں کا راج ہے وشمہ جہان میں