اتنا شاذ و نادر بھی نہ تھا سنورنے کا سبب
بس سوچ کو مل گیا کہیں بکھرنے کا سبب
اپنے بند گیسو بام پہ جو کھول دیئے
یوں ہوائیں بھی بن گئی الجھنے کا سبب
وہ کلیاں تو اب پھول بن چکی ہیں
چمن کو مل جائے گا اجڑنے کا سبب
تیرے غماز سے ہی تو رُک گیا ہوں
پھر کیوں پوُچھتے ہو ٹھہرنے کا سبب
دور پناہوں کو تاک کے نہ دیکھا کرو
منظر بن جاتے ہیں آنکھ بھرنے کا سبب
تیری یاد نے جینے سا نہ چھوڑا ورنہ
یوں کون ڈھونڈتا ہے سنتوشؔ مرنے کا سبب