اتنا مشکل بھی نہیں عشق تو آساں بھی نہیں
باعث درد نہیں، درد کا درماں بھی نہیں
میں ادھر کا بھی نہیں، اور اُدھر کا نہ رہا
تجھ سے راضی بھی نہیں اور میں نالاں بھی نہیں
تُو نہیں ہے، تو بھی احساس ترا رہتا ہے
وصل لگتا بھی نہیں اور یہ ہجراں بھی نہیں
کیا مصیبت ہے، ہوا جب سے محبت کا اسیر
اب تو آزاد نہیں ہوں، پس زنداں بھی نہیں
اُس کے اظہار سے پہلے کوئی امکان تو تھا
اب جو انکار کیا ہے تو وہ امکاں بھی نہیں
خط ملا ہے پہ عبارت ہے شکستہ اظہر
نام عنقا ہے، اور اُس پر کوئی عنواں بھی نہیں