اک ان کہے سوا ل کو دل سے گرا نہ دو
اتنے سے اک گناہ کی اتنی سزا نہ دو
پیدا ہے سارا حسن تیری چشم ناز سے
فطرت سے ابھی خود کو کوئی فاصلہ نہ دو
اک بے ضمیر سانس سے بہتر ہے کہیں موت
ظالم کے ہاتھ سے مجھے خاک شفا نہ دو
دل میں ہی دبا رہنے دو اے حلقہ ء مژگاں
سیل ردائے غم کو ابھی راستہ نہ دو
پہلے ہی ایک قوس قزح بھٹکتی پھرے
رنگوں کی کہکشاؤں کو میرا پتہ نہ دو
میں مستعار چیزوں کا قائل نہیں ہوں دوست
اتنا طویل جینے کی مجھکودعا نہ دو