اجنبی اک مسافر جو نادان تھا
ایک مدّت ہوئی
بیوفا شہر کی بے مرّوت فضاؤں میں آیا مگر
شہر کے تنگ نظر باسیوں نے
تنہاء اجنبی کو ستایا بہت
تنگ آکر وہاں سے چلا اجنبی
وقت رخصت وہ گھوما پھرا شہر میں
گھومتے گھومتے بیوفاء شہر کی
لا تعلق گلی سے گزرتے ہوئے
ایک کھڑکی میں بیٹھی ہوئی
اک حسینہ پہ اسکی نظر رک گئی
اجنبی کی نگاہوں میں چاہت کے ڈورے ابھرتے ہوئے
دیکھ کر اس حسینہ نے کھڑکی کو بند کردیا
اجنبی سے تعلق کا ہر سلسلہ منقع کردیا
آخرش اجنبی دل پہ یادوں کا اک زخم نوخیز لیکر
روانہ ہوا
اپنی آنکھوں میں حسرت کے آنسو لیے
بند کھڑکی کو تکتا روانہ ہوا
بیوفا شہر کی لاتعلق گلی سے روانہ ہوا