سنو
اجنبی تم اس طرح روز روز نہ ملا کرو
ڈر لگتا ہے کہیں مانوس نہ ھو جائے میری ذات تیری ذات سے کچھ اسطرح
جیسے پھول سے شبنم
ستاروں سے رات
مہندی سے ہاتھ
کاجل سے آنکھ
لہروں سے مستی
بلبل سے شاخ
شام سے تنہائی
اس لیے کہتی ہوں اجنبی روز نہ ملا کرو
اگر تمہیں میری عادت ہو گئی
کچھ اسطرح
چوڑی سے کلائی
کجرے سے بال
صحرا سے مٹی
کوئل سے آواز
بہار سے گلشن
تو اب مان لو میرا کہنا روز نہ ملا کرو