احساس شمع جلائے کوئی
ساغر کی پیاس بجھائے کوئیی
سفر کٹا ہے میرا آندھیوں میں
نقش میرے شہر کے بتلائے کوئی
تنہا ہوں ان کٹھن راہوں میں
قافلہ میری راہ کا آئے کوئی
پیاسی ہیں اس کی دید کو میری آنکھیں
اک شب کے لیے مہتاب بلائے کوئی
کتنی تلخ حقیقت ہے اس دنیا کی
افسا نہ اسکی وفا کا سنائے کوئی
سارا عالم انجانہ کیوں ہے
آگاہ شعور دلائے کوئی
اے نور دنیا تو آنی جانی ہے
پھر کیوں صد جینے کی آس لگائے کوئی