سادا مگر فنکار اک دل کو ہے بھا گیا
باتوں سے جس کی قیامت کا خمار چھا گیا
انجان نجانے کیسے میرے دل کو گدگدا گیا
مچل گئے ہیں ارماں اور خود کہاں گیا
مردہ سے دل میں وہ اک شعلہ جلا گیا
دشوار میرا وہ ہر اک لمحہ بنا گیا
پھر اس پر اک اور وہ ستم یہ ڈھا گیا
قربتوں کے خوف سے وہ فاصلے بڑھا گیا
چاہتوں میں جس کی میرا یہ دل رستہ بھلا گیا
سوچا نہ تھا کبھی وہ ایسا خواب دکھا گیا
کیسا یہ ابر الفت مجھ پہ کل سے چھا گیا
برس رہا ہے رات سے میرا تن من بھگا گیا
سلگتے میرے جذبات کو وہ چپ ہی کرا گیا
مگر رات اپنے حصار میں وہ مجھ کو سلا گیا