بڑی اداس شامیں گزرتی ہیں میری
کہ پل پل سانسیں پگھلتی ہیں میری
آؤ کہ اک بار گلے سے لگاؤ
کہ اب تو باتیں بہکتی ہیں میری
جانے کیا کہتی ہیں یہ خاموشیاں
ترنم چھڑتی ہیں یہ مدہوشیاں
آؤ کہ اک نیا افسانہ بنائیے
اب تو آنکھیں آنسو چھلکتی ہیں میری
کہیں دیر نہ ہو جائے میرے صنم
ٹوٹ نہ جائے میری محبت کا برہم
آؤ کہ آج تم بھی کچھ کہو
اب تو کچھ کہنے کو زبان ترستی ہے میری