ادھورا ہے یہ افسانہ
نشانہ اس کی چاہت کا
پتنگے جیسا پروانہ
بنا جس دن اچانک سے
تو میرے دل نے یہ جانا
یہ سب باتیں خیالی ہیں
کسی حد تک جمالی ہیں نرالی ہیں
مگر اس کو صدف کا دل
کسی صورت نہیں مانا
پھر اس کے بید جانے کیوں؟
مجھے بھی یہ خیال آیا
حقیقت جس کو سمجھا ہے
محبت جس کو جانا ہے
حقیقت وہ نہیں بالکل
محبت وہ نہں بالکل
ادھورا ہے یہ افسانہ
مکمل جس کو ہے جانا
ادھورا ہے یہ افسانہ
کسی کے دل نے یہ مانا
میری آنکھیں ہیں میخانہ
یقین کرنا پڑا مجھ کو
کہ اب تو نے نہیں آنا
بہت دشوار لگتا ہے
دلِ ناداں کو بہلانا
جسے اپنا سمجھ بیٹھی
وہی نکلا ہے بیگانہ
طبیعت جب بھی گھبرائے
میری جانب چلے آنا
مجھے بھی اب عطا کر دے
وفا اپنی جدا گانہ
صدف دل میں خلش سی ہے
ادھورا ہے یہ افسانہ