اس جہاں کے رَوِش تو جماؤ سے پریشان نہیں ہوتے
یہ حشر حال بھی کہیں تناؤ سے پریشان نہیں ہوتے
وہ اپنی اذیت کو بس جھیلنا ہی جانتے ہیں
عشق اور الاہی دباؤ سے پریشان نہیں ہوتے
توُ تو اکثر اپنے ہی دامن کی بات کرتا ہے
کون سے کلیجے جو چبھاؤ سے پریشان نہیں ہوتے
اس سے پہلے اپنے رنج نے بیشمار بہادیئے
میرے اشک کسی ٹھہراؤ سے پریشان نہیں ہوتے
دنیا کارگری تو ہر چلن میں ہی بستی ہے
انداز اور قیاس ایسے بھاؤ سے پریشان نہیں ہوتے
اکثر لوگوں کو اوروں کے انداز تولتے دیکھا
سنتوشؔ وہ کیوں اپنے سبھاؤ سے پریشان نہیں ہوتے