اس دل میں تیری یاد کا طوفان رہے گا
جو تم چلے جاؤگے تو ارمان رہے گا
میں شب میں بُلاتا ہوں تجھے خواب میں اکثر
گر سامنے آؤ گے تو احسان رہے گا۔
جس شخص نے دیکھا ہے تجھے روبرو ہو کر
کرتا ہوں میں دعوہ کہ وہ حیران رہے گا۔
اجنبی بن کےجو تو سامنے سے گزرے گی
نہ میرا ہوش، نہ دھڑکن و نہ اوسان رہے گا۔
کب تک کرو گی تم یہ سزاۓ تازیانہ
لگتا ہے کہ محشر تک یہ دیوان رہے گا۔
ہم چاہیں یا نہ چاہیں پر کچھ نہیں کر سکتے
عمر بھر ہمارے سر پہ تُو سلطان رہے گا۔
تو اگر کہے ! تو ہو جاؤں گا فانی
پر یاد رکھو پھر بھی یہ داستا ن رہے گا۔
عبدالؔ کہ وقت ہے ابھی تو چھوڑ دے دنیا۔
ورنہ تیری پاک دامنی پہ بہتان رہے گا۔