اس دل کے موسموں کا شناسا کہیں جسے
Poet: نویدصدیقی By: نویدصدیقی, Lodhranاس دل کے موسموں کا شناسا کہیں جسے
کوئی ہو اس جہاں میں کہ اپنا کہیں جسے
تہذیب ِ نو کے باب میں کہنا ہے بس یہی
دراصل تیرگی ہے ،اجالا کہیں جسے
مولا! مرے سخن کو عطا کر وہ بانکپن
اہلِ سخن تمام اچھوتا کہیں جسے
پیدا کر اپنے آپ میں وہ جوہر ِ کمال
اے دوست ! تیری ذات کا گہنا کہیں جسے
ڈھلتا نہیں سخن میں ترا پیکر ِ حسیں
"ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے"
آیا نہیں ہے شخص کوئی ایسا سامنے
بے ساختہ ہم عکس تمھارا کہیں جسے
وہ بھی ہماری کاہشِ امروز کا ہے پھل
اہلِ زمانہ حاصلِ فردا کہیں جسے
سمجھیں تو خود ہی اپنی تماشائی ہے نوید
کہنے کولوگ چشم ِ تماشا کہیں جسے
More Love / Romantic Poetry






