دیکھا جو وصل کی شب انداز دل بری کا
آنکھوں میں رہ گیا وہ عالم سپردگی کا
جینا ہوا ہے مشکل احساس کی چبھن سے
ہم کو نہ مارڈالے یہ شوق آگہی کا
کرتے ہو بے رخی کا شکوہ خدا سے ناحق
حق بھی ادا کیا ہے کیا تم نے بندگی کا؟
کتنی طویل ہو گی یہ رنج کی مسافت
کب تک کروں نظارہ میں تیری بے حسی کا
کل ٹھوکروں میں ہو گاسردار!یہ ترا سر
سمجھا اگر نہ مطلب لوگوں کی خامشی کا
ماتم کناں ہے انساں اور آپ کہہ رہے ہیں
"بیدار ہو رہا ہے انسان اس صدی کا"