اس دل کے موسموں کا شناسا کہیں جسے
کوئی ہو اس جہاں میں کہ اپنا کہیں جسے
تہذیب ِ نو کے باب میں کہنا ہے بس یہی
دراصل تیرگی ہے ،اجالا کہیں جسے
مولا! مرے سخن کو عطا کر وہ بانکپن
اہلِ سخن تمام اچھوتا کہیں جسے
پیدا کر اپنے آپ میں وہ جوہر ِ کمال
اے دوست ! تیری ذات کا گہنا کہیں جسے
ڈھلتا نہیں سخن میں ترا پیکر ِ حسیں
"ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے"
آیا نہیں ہے شخص کوئی ایسا سامنے
بے ساختہ ہم عکس تمھارا کہیں جسے
وہ بھی ہماری کاہشِ امروز کا ہے پھل
اہلِ زمانہ حاصلِ فردا کہیں جسے
سمجھیں تو خود ہی اپنی تماشائی ہے نوید
کہنے کولوگ چشم ِ تماشا کہیں جسے